7
رﯾﻔﺎرﻣﮉ ﺟﯽ اﯾﺲ ﭨﯽ اور ﻃﺒﻘﺎﺗﯽ ﻣﻔﺎدات ﮐﯽ ﻟﮍاﺋﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮ: رﯾﺎض اﺣﻤﺪ اﻧﭩﺮﻧﯿﺸﻨﻞ ﺳﻮﺷﻠﺴﭧ} ﭘﺎﮐﺴﺘﺎن{ ، worldtowinpk.net ٢٠٠٨ ﻣﯿﮟ آﺋﯽ اﯾﻢ اﯾﻒ ﺳﮯ اﺳﭩﯿﻨﮉ ﺑﺎﺋﯽ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ} درآﻣﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻢ ﭘﮍﻧﮯ واﻟﮯ ڈاﻟﺮوں ﮐﺎ ﻗﺮﺿہ{ ﮐﮯ وﻗﺖ آﺋ اﯾﻢ اﯾﻒ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐہ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺑﺠﭧ ﮐﺎ ﺧﺴﺎرﮦ ﮐﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ" اﻧﺮﺟﯽ ﭘﺮ ﺳﺒﺴﮉی ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﺎ، ﺗﺮﻗﯿﺎﺗﯽ ﭘﺮوﮔﺮاﻣﻮں ﮐﯽ درﺳﺖ ﺗﺮﺟﯿﺤﺎت ﮐﺎ ﺗﻌﯿﻦ ﮐﺮﻧﺎ اور ﭨﯿﮑﺲ ﮐﯽ ﻣﻀﺒﻮط ﭘﺎﻟﯿﺴﯽ ﻧﺎﻓﻆ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ" ۔اﻧﮩﻮں ﻧﮯ ﯾہ ﺑﮭﯽ ﺷﺮط ﻟﮕﺎﺋﯽ ﮐہ ﻣﮩﻨﮕﺎﺋﯽ ﮐﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺳﻮد ﮐﯽ ﺷﺮح ﻣﯿﮟ اﺿﺎﻓہ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﻣﺮﮐﺰی ﺑﻨﮏ ﺳﮯ ﻗﺮض ﻟﯿﻨﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔" " ﻏﺮﯾﺒﻮں ﮐﯽ اﻣﺪاد ﮐﮯ ﻟﯿﮯ اﻗﺪاﻣﺎت ﮐﺮﻧﮯ ﮨﻮں ﮔﮯ اور ﺳﻮﺷﻞ ﺳﯿﻔﭩﯽ ﻧﯿﭧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﻮﻣﯽ آﻣﺪﻧﯽ ﮐﺎ٩ ء ﻓﯿﺼﺪ ﻣﺨﺘﺺ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ} ١ { ۔ ان ﺗﻤﺎم ﺷﺮاﺋﻂ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺻﺮف اﯾﮏ ﭘﻮری ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ اور وﮦ ﮨﮯ ﻣﺮﮐﺰی ﺑﻨﮏ ﺳﮯ ﻗﺮض۔ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﻤﺎم ﺷﺮاﺋﻂ ﭘﻮری ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻋﻮام ﭘﺮ ﻣﮩﻨﮕﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﭘﮩﺎڑ ﺗﻮڑ دﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ آﺋﯽ ا ﯾﻢ اﯾﻒ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﮨﺪوں ﮐﺎ اﺛﺮ: ﻣﺰدور اﺳﺘﺤﺼﺎل ﻣﯿﮟ اﺿﺎﻓہ٢٠٠١ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻟﻮں ﻣﯿﮟ آﺋﯽ اﯾﻢ اﯾﻒ ﮐﮯ اﻗﺪاﻣﺎت ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠہ ﮐﯿﺎ ﻧﮑﻼ ؟ ﺻﺮف اﯾﮏ اور وﮦ ﯾہ ﮐہ ﻗﻮﻣﯽ آﻣﺪﻧﯽ دﮔﻨﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ﯾﻌﻨﯽ ﯾہ ﮐہ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎن ﻣﯿﮟ ﻣﺰدوروں ﺳﮯ دﮔﻨ دوﻟﺖ ﭘﯿﺪا ﮐﺮواﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ} ٢ { ۔٢٠٠٨ ﺳﮯ آﺋﯽ اﯾﻢ اﯾﻒ ﮐﮯ ﻗﺮﺿﻮﯽ اﯾﻢ اﯾﻒ ﮐﮯ ں ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻧﺘﯿﺠہ ﻧﮑﻼ ۔ ﺻﺮف اﯾﮏ اور وﮦ ﯾہ ﮐہ ﻗﻮﻣﯽ آﻣﺪﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﯿﺲ ﻓﯿﺼﺪ اﺿﺎﻓہ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ آﺋ ﻟﯿﮯ ﯾہ اﺿﺎﻓہ اس ﻟﯿﮯ ﺿﺮوری ﮨﮯ ﮐہ اﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﻏﺮﯾﺐ ﺗﺮﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ۔ ﺑﻠﮑہ اﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ اﻣﯿﺮ اﻣﯿﺮ ﺗﺮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ اور ﺑﯿﻦ اﻻﻗﻮاﻣﯽ ﺳﺮﻣﺎﯾ ہ دار ﺑﮭﯽ ارﺑﻮں روﭘﮯ ﮐﻤﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﮐﺎ اﯾﮏ اﮨﻢ زرﯾﻌہ اب ﺗﯿﻞ اور ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﭘﯿﺪاوار ﮨﮯ۔ اس ﭘﺮ ﺑﮍی ﺣﺪ ﺗﮏ اب ﮐﻨﭩﺮول ﻧﺠﯽ ﺑﯿﻦ اﻻﻗﻮاﻣﯽ ﮐﻤﭙﻨﯿﻮں ﮐﺎ ﮨﮯ۔ اور اﻧﮑﮯ ﻣﻨﺎﻓﻊ اس وﻗﺖ ﺗﮏ ﺑﮍھﺘﮯ رﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻧﺮخ ﺑﮍھﯿﮟ۔ اور ﻧﺮخ ﻋﻮام ادا ﮐﺮے ﯾﺎ ﺳﺮﮐﺎر دوﻧﻮں ﺻﻮرﺗﻮں ﻣﯿﮟ ﯾہ ﻋﻮام ﮐ ﯽ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ رﯾﻔﺎرﻣﮉ ﺟﻨﺮل ﺳﯿﻠﺰ ﭨﯿﮑﺲ رﯾﻔﺎرﻣﮉ ﺟﯽ اﯾﺲ ﭨﯽ ﭘﺎرﻟﯿﻤﺎن ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﮯ واﻻ ﮨﮯ۔ ﺳﺮﮐﺎر ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾہ ﭨﯿﮑﺲ اس ﻟﯿﮯ ﺿﺮوری ﮨﮯ ﺗﺎ ﮐہ ﺑﮍھﺘﺎ ﮨﻮا ﺑﺠﭧ ﺧﺴﺎرﮦ ﮐﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ۔ آﻣﺪﻧﯽ ﺑﮍھﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻨﺮل ﺳﯿﻠﺰ ﭨﯿﮑﺲ ﮐﺎ دا ﺋﺮ ﮦ ﺑﮍھﺎﯾﺎ ﺟﺎ رﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﻮں ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﯽ اﺷﯿﺎء ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺗﻤﺎم ﮨﯽ ﻣﺼﻨﻮﻋﺎت اور ﺳﺮوﺳﺰ ﮐﻮ اس ﮐﮯ زﻣﺮے ﻣﯿﮟ ﻻﯾﺎ ﺟﺎ رﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺳﺮﮐﺎر ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ اس ﺳﮯ ﻣﮩﻨﮕﺎ ﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮍھﮯ ﮔﯽ۔ ﺳﺮﮐﺎر ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﭘﺎرﻟﯿﻤﺎﻧﯽ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﮐﺮﻧﮯ واﻟﯽ ﭘﺎرﭨﯿﺎں ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮐہ اس ﺳﮯ ﻣﮩﻨﮕﺎ ﺋﯽ ﺑﮍھﮯ ﮔﯽ۔ ﻣﺜﻼ اﯾﻢ ﮐﯿﻮ اﯾﻢ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﮐہ اس ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮐﺎروﺑﺎری ا ور ﻏﺮﯾﺐ ﻋﻮام ﭘﺮ ﺑﻮﺟﮫ ﺑﮍھﮯ ﮔﺎ۔ ﺟﻤﺎﻋﺖ اﺳﻼﻣﯽ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﮐہ اس ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮐﺎروﺑﺎر ﭨﮭﭗ ﮨﻮ ﺟﺎ ﺋﮯ ﮔﺎ۔ اے اﯾﻦ ﭘﯽ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ اس ﺳﮯ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﮨﻮ ﺟﺎءﯾﮟ ﮔﯽ۔ ن ﻟﯿﮓ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ اس ﺳﮯ ﺻﻨﻌﺘﯽ ﻣﺼﻨﻮﻋﺎت ﻣﮩﻨﮕﯽ ﮨﻮ ﺟﺎءﯾﮟ ﮔﯽ اور ﻣﮩﻨﮕﺎ ﺋﯽ ﮐﺎ اﯾﮏ ﺳﯿﻼب آ ﺟﺎ ﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﮨﺮ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﭘﺎرﭨﯽ ﻏﺮﯾﺐ ﻋﻮام اور ﻣﺰدور ﻃﺒﻘہ ﭘﺮ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺎ روﻧﺎ رو رﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﮕﺮان ﮐﺎ ﺗﺠﻮﯾﺰ ﮐﺮدﮦ ﺣﻞ ﺳﺮاﺳﺮ ﻣﺰدور اور ﻏﺮﯾﺐ ﭘﺮ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﻢ ﮐﺮﻧﮯ واﻻﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑہ اﺳﮯ روا رﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﮨﮯ۔ ان ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠہ ﻣﮩﻨﮕﺎﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻃﺒﻘﺎﺗﯽ ﻣﻔﺎدات ﮨﯿﮟ۔ ان ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮨﮯ ﮐہ ﯾہ ﭘﺎرﭨﯿﺎں ﺟﻦ ﺟﻦ ﭘﺮﺗﻮں ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮦ ﮨﯿﮟ ان ﭘﺮ ﭨﯿﮑﺲ ﻧہ ﻟﮕﮯ ﺑﻠ ﮑﮯ ﮐﺴﯽ اور ﭘﺮ ﻟﮕﮯ۔آﺋﯿﮯ اﺳﮑﯽ ﻣﺜﺎﻟﯿﮟ دﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻃﺒﻘﺎﺗﯽ ﻣﻔﺎد اورﭨﯿﮑﺲ اﯾﻢ ﮐﯿﻮ اﯾﻢ ﺟﺐ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﮐہ ﭨﯿﮑﺲ ﺟﺎﮔﯿﺮدار اور زرﻋﯽ آﻣﺪﻧﯽ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺋﮯ ﺗﻮ ﯾہ ﺑﮩﺖ ﭼﺎﻻﮐﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﮩﺮی ﮐﺎروﺑﺎری اور ﺧﺎص ﮐﺮ ﺷﮩﺮوں ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ زﯾﺎدﮦ دوﻟﺖ ﻣﻨﺪ ﯾﻌﻨﯽ ﺷﯿﺌﺮز اور ﻣﺎﻟﯿﺎت ﮐﺎ ﮐﺎم ﮐﺮﻧﮯ واﻟﻮں ﭘﺮ ﭨﯿﮑﺲ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﺎ ذﮐﺮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ۔ ﯾﮩﯽ ﺻﻮرت ﭘﯿﭙﻠﺰ ﭘﺎرﭨﯽ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭨﺮﯾﮉرز اور ﻣﺰدور ﻃﺒﻘہ ﭘﺮ ﭨﯿﮑﺲ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ڈال ﮐﺮ ﺑﯿﻦ اﻻﻗﻮاﻣﯽ ﺳﺮﻣﺎﯾہ داروں ﮐﯽ ﮔﻠﻮ ﺧﻼﺻﯽ ﮐﺮاﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺟﻤﺎﻋﺖ اﺳﻼﻣﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﮩﺮی ﮐﺎروﺑﺎرﯾﻮں ، ﺧﺎص ﮐﺮ رﺋﯿﻞ اﺳﭩﯿﭧ اور زﻣﯿﻨﺪاروں ﭘﺮ ﭨﯿﮑﺲ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ڈاﻟﻨﮯ ﮐ ﺎ ذﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ۔ ن ﻟﯿﮓ اﭘﻨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮐﺎروﺑﺎری ﺳﺎﺗﮭﯿﻮں اور ﻣﻘﺎﻣﯽ ﺑﮍےCreate PDF files without this message by purchasing novaPDF printer (http://www.novapdf.com)

Reformed GST and Class Struggle

Embed Size (px)

DESCRIPTION

an article on reformed GST imposed on Pakistan by IMF

Citation preview

Page 1: Reformed GST and Class Struggle

لڑائیطبقاتی مفادات کی اورجی ایس ٹی ریفارمڈ ریاض احمد: تحریر

worldtowinpk.net، }پاکستان{انٹرنیشنل سوشلسٹ

کے وقت آِئی }درآمد کرنے کے لیے کم پڑنے والے ڈالروں کا قرضہ{ میں آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی معاہدہ ٢٠٠٨انرجی پر سبسڈی ختم کرنا، ترقیاتی پروگراموں "کرنے کے لیے ایم ایف نے کہا تھا کہ پاکستانی بجٹ کا خسارہ کم

۔انہوں نے یہ بھی شرط لگائی کہ "کی درست ترجیحات کا تعین کرنا اور ٹیکس کی مضبوط پالیسی نافظ کرنا ہو گا غریبوں""مہنگائی کم کرنے کےلیے سود کی شرح میں اضافہ کرنا ہو گا۔ مرکزی بنک سے قرض لینا بند کرنا ہو گا۔

ء فیصد مختص کرنا ہو ٩کی امداد کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے اور سوشل سیفٹی نیٹ کے لیے قومی آمدنی کا ان تمام شرائط میں سے صرف ایک پوری نہیں ہوئی اور وہ ہے مرکزی بنک سے قرض۔ باقی تمام شرائط ۔}١{گا

پوری کرنے میں عوام پر مہنگائی کا عظیم پہاڑ توڑ دیا گیا۔

مزدور استحصال میں اضافہ: یم ایف سے معاہدوں کا اثرآئی ا صرف ایک اور وہ یہ کہ قومی آمدنی دگنی ہو ؟ سے پانچ سالوں میں آئی ایم ایف کے اقدامات کا نتیجہ کیا نکال٢٠٠١

سے آئی ایم ایف کے ٢٠٠٨۔ }٢ {دولت پیدا کروائی جانے لگیی کہ پاکستان میں مزدوروں سے دگنگئی۔یعنی یہ ں کا کیا نتیجہ نکال ۔ صرف ایک اور وہ یہ کہ قومی آمدنی میں مزید بیس فیصد اضافہ ہو گیا۔ آِئی ایم ایف کے قرضو

لیے یہ اضافہ اس لیے ضروری ہے کہ ایسا کرنے میں ملک کے غریب ترقی نہیں کرتے۔ بلکہ ایسا کرنے میں ملک ہ دار بھی اربوں روپے کماتے ہیں۔ کمائی کا ایک اہم میں پہلے سے امیر امیر تر ہوتے ہیں۔ اور بین االقوامی سرمای

زریعہ اب تیل اور بجلی کی پیداوار ہے۔ اس پر بڑی حد تک اب کنٹرول نجی بین االقوامی کمپنیوں کا ہے۔ اور انکے منافع اس وقت تک بڑھتے رہیں گے جب تک نرخ بڑھیں۔ اور نرخ عوام ادا کرے یا سرکار دونوں صورتوں میں یہ

ی جیب سے ہی جاتا ہے۔ عوام ک

ریفارمڈ جنرل سیلز ٹیکسریفارمڈ جی ایس ٹی پارلیمان میں پیش کیا جانے واال ہے۔ سرکار کے مطابق یہ ٹیکس اس لیے ضروری ہے تا کہ

ہ بڑھایا جا رہا ہے۔ یوں ئربڑھتا ہوا بجٹ خسارہ کم کیا جا سکے۔ آمدنی بڑھانے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس کا داکی اشیاء سے لے کر تمام ہی مصنوعات اور سروسز کو اس کے زمرے میں الیا جا رہا ہے۔ سرکار کہتی کھانے پینے

نہیں بڑھے گی۔ ئیہے اس سے مہنگا بڑھے گی۔ مثال ایم کیو ئیسرکار کی مخالف پارلیمانی سیاست کرنے والی پارٹیاں کہتی ہیں کہ اس سے مہنگا

ور غریب عوام پر بوجھ بڑھے گا۔ جماعت اسالمی کہتی ہے کہ اس سے ایم کہتی ہے کہ اس سے چھوٹے کاروباری ا گا۔ اے این پی کا کہنا ہے اس سے کتابیں مہنگی ہو جاءیں گی۔ ن لیگ کے مطابق اس ئےچھوٹا کاروبار ٹھپ ہو جا

اور گا۔ ہر سیاسی پارٹی غریب عوامئے کا ایک سیالب آ جائیسے صنعتی مصنوعات مہنگی ہو جاءیں گی اور مہنگامزدور طبقہ پر بوجھ کا رونا رو رہی ہے۔ مگران کا تجویز کردہ حل سراسر مزدور اور غریب پر بوجھ کم کرنے

ان کی کوشش ہے کہ یہ پارٹیاں ان کا مسئلہ مہنگائی نہیں طبقاتی مفادات ہیں۔ واالنہیں بلکہ اسے روا رکھنے کا ہے۔ کے کسی اور پر لگے۔آئیے اسکی مثالیں دیکھتے ہیں۔جن جن پرتوں کی نمائندہ ہیں ان پر ٹیکس نہ لگے بل

اورٹیکسطبقاتی مفاد

تو یہ بہت چاالکی کے ساتھ شہری ئےایم کیو ایم جب کہتی ہے کہ ٹیکس جاگیردار اور زرعی آمدنی پر لگایا جا پر ٹیکس شیئرز اور مالیات کا کام کرنے والوںکاروباری اور خاص کر شہروں میں سب سے زیادہ دولت مند یعنی

لگانے کا ذکر ہی نہیں کرتی۔ یہی صورت پیپلز پارٹی کی ہے جو ٹریڈرز اور مزدور طبقہ پر ٹیکس کا بوجھ ڈال کر بیناالقوامی سرمایہ داروں کی گلو خالصی کرانا چاہتی ہے۔ جماعت اسالمی بھی شہری کاروباریوں ، خاص کر رئیل اسٹیٹ

ا ذکر نہیں کرتی۔ ن لیگ اپنے چھوٹے کاروباری ساتھیوں اور مقامی بڑے اور زمینداروں پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنے ک

Create PDF files without this message by purchasing novaPDF printer (http://www.novapdf.com)

Page 2: Reformed GST and Class Struggle

سرمایہ داروںکو ٹیکس سے بچانے کے لیے کرپشن کے خاتمے اور سرکاری مالزمین کی چھانٹیوں کو حل قرار دیتی ہے۔

بحران سے نکلنے کا ٹیکس

اری کو بحران سے نکالنے کا ایک عمل ہے۔ آئی ایم ایف کی ایماء پر ٹیکس لگانے کا کام دراصل پاکستانی سرمایہ دسٹہ باز مالیات کا کاروبار کرنے والے، چھوٹے سرمایہ دار، ایسا کرنے میں پاکستان میں سرمایہ دار، جاگیر دار،

چھوٹے کاروباریوں کی نمائندہ کرنے والی پارٹیاں پارلیمان میں کھینچا تانی کر رہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی یہ جس طبقاتی پرت کی نمائندہ ہیں وہ بحران سے نکلنے کی قیمت ادا نہ کرے۔ بحران ہے ہی سرکاری کوشش ہے کہ

اخراجات کا۔ سرکار اخراجات زیادہ کر رہی ہے، اسکی آمدنی کم ہے۔ عام طور پر تمام ہی حکومتیں خرچ زیادہ کر رہی کرنے کے لیے رقم کی کمی پورا کرنے کے ہیں۔پاکستانی سرکار پر خرچ کم کرنے کا دبائو اس لیے ہے کہ یہ خرچ

لیے آِئی ایم ایف کے پاس گِئی ہے۔ یونان، آئرلینڈ بھی آئی ایم ایف کے پاس گَئے ہیں۔ پاکستانی سرکار اس لیے گئی ارب ڈالر کی یہ کمی ہے۔ یہ ڈالر عوام کے لیے نہیں ۴ سے ٢ہے کہ اس کے پاس امپورٹ کرنے کو ڈالر کم ہیں۔قریب

کے لیے اسلحہ، بڑے سرمایہ داروں کے لیے مشینری اور سروسز اور بجلی کے کمپنیوں کے لیے تیل بلکہ فوج خریدنے کے لیے چاہئیں۔ یوں قرضہ عوام کے لیے نہیں بلکہ خواص کے لیے لیا جا رہا ہے۔ یہ قرض نہ لیا جائے گا

یں کمی کی وجہ سے پاکستانی سرمایہ تو سرمایہ داروں کی آمدنی پر اثر پڑے گا۔ عالمی سطح پر اشیاء کی خرید م داروں کے منافع کم ہو گئے ہیں۔ سرکارانہی سرمایہ داروں کی اولین ترجمان ہے۔

آئی ایم ایف کی آمدنی بڑھانے کی بحث

میڈیا پر انہی سرمایہ داروں اور دیگر طبقاتی پرتوں کے ترجمان ایک بات پر متفق ہیں کہ سرکار کو مزیڈ ٹیکسوں کی ۔ آئی ایم ایف کہتی ہے کہ قرض تب ہی ملے گا جب سرکار آمدنی بڑھائے اور عالمی سرمایہ داروں کو ضرورت ہے

چھوٹ دے۔ آئی ایم ایف کے لیے آمدنی کیسے بڑھاِئی جائے؟ اس سوال پر یہ مبصرین اور پارٹیاں تقسیم ہیں۔ پیپلز لیکن یہ قرض لینے پر متفق ہیں۔ اسی لیے یہ پارٹی کی حواری پارٹیاں بھی تقسیم ہیں۔ یوں حکمران طبقہ تقسیم ہے۔

آئی ایم ایف سے قرض لینے سے انکار کرنے کی بات نہیں کرتے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس قرض کی ادائیگی انکی پرت سے نہیں لی جائے۔

ٹیکس دینے والوں کی تعداد اور ہوشرباء ٹیکسں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ ایک مبصر اکبر زیدی جو یہ مبصرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ٹیکس دینے والو

کو ڈان میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کی ٹیکس بیس بڑھانے کی ٢٠١٠نومبر ٢٧خاصے ریڈیکل سمجھے جاتے ہیں وہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ } ٹیکس ٹو جی ڈی پی {ضرورت ہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ قومی آمدنی کی نسبت ٹیکس

۴۴١ میں ٢٠٠١ سالوں میں پاکستان میں ٹیکسوں سے آمدنی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ ١٠گزشتہ حقیقت یہ ہے کہ ارب روپے ہو گیا۔ یوں جو لوگ ١۴٧٢ میں یہ تین گنا بڑھ کر ٢٠٠٩ارب روپے ٹیکس اکھٹا ہوتا تھا، مالی سال

ظر انداز کر رہے ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ قومی آمدنی کی نسبت ٹیکس میں اضافے کی ضرورت ہے وہ اس بات کو ن لوگ ٹیکس دے رہے ہیں ُان سے پہلے ہیں بہت ٹیکس لیا جانے لگا ہے۔

سیلز ٹیکس یا براہ راست ٹیکس

سیلز ٹیکس کے بجائے براہ راست ٹیکس میں اضافہ کیا جائے۔ گزشتہ دس سالوں میں جہاں ایک اور دلیل یہ ہے کہ ارب سے ١٢۴ ارب روپے ہوئی وہاں براہ راست ٹیکس بھی ۵١۶ ارب روپے سے بڑھ کر١۵٣سیلز ٹیکس کی رقم

ارب روپے ہو گئی۔ ۵٢٨بڑھ کر

آئی ایم ایف کا اعتراض اندرونی قرضجس چیز پر آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ اعتراض ہے وہ یہ نہیں کہ قرض لیا جا رہا ہے ۔ بلکہ انکا اعتراض دراصل

رہا ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ حکومت اندرونی قرضے لے کر مہنگائی میں اضافہ کر یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے کم لیا جا ارب سے بڑح کر ١٢٢رہی ہے۔ ان اندرونی قرضوںکو کم کیا جائے۔ یوں گزشتہ دس سالوں میں بیرونی قرضے

}٣{ ارب ہو گئے٩۴٠ ارب سے بڑھ کر ۵۶ ارب ہوئے مگر اندرونی قرضے ١٨٨

Create PDF files without this message by purchasing novaPDF printer (http://www.novapdf.com)

Page 3: Reformed GST and Class Struggle

فیصد ہو گئے ہیں یعنی ملک میں دولت ۵۵ہے کہ اندرونی قرض قومی آمدنی کا جہاں آئی ایم ایف کا یہ کہنا جبکہ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے نجی سرمایہ داروں کوبحرانوں کم پیدا ہورہی ہے اور سرکار زیادہ خرچ کر رہی ہے۔

۔وہاں }۴یے ٹیبلدیکھئ{سے نکلنے کےلیے بڑے پیمانےپر سرکاری وسائل کو نجی سرمایہ داروں کے حوالے کیا ہے فیصد قرض لینا کوئی انہونی بات بھی نہیں۔ اس وقت بہت سارے ترقی ۵۵پاکستانی سرکار کا قومی آمدنی کی نسبت

یافتہ ممالک پاکستان سے کہیں زیادہ قرض لیتے ہیں۔ مگر یہ قدغنیں کہ قومی نجی سرمایہ دار کوبچانے کے لیے اضافہ نہ کروکس کی طرف سے آتی ہے؟ یہ ان عالمی سرمایہ داروں کی قومی دولت نہ بانٹو اوراندرونی قرضوں میں

جانب سے آتی ہے جن کے پاس کوئی ملک قرض لینے جاتا ہے۔ آئی ایم ایف ان عالمی سرمایہ داروں کی نمائندہ ہے ۔ ھر عالمی یہ جانتی ہے کہ مقامی سرمایہ دارکو اندرونی قرض لے کر بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ بچ گیا تو پ

اداروں سے لیے گئے قرض کو لوٹانے کی رقم کہاں سے آئے گی؟اس لیے جو فارموال ترقی یافتہ ممالک کے لیے درست ہے وہ قرض لینے والے ترقی پزیر ملک کے لیے درست نہیں قرارپاتا۔ یہ تو ہے محدودیت عالمی سرمایہ داری

کی۔

اسرکارکااندرونی نجی مالیاتی اداروں سے قرض لین یہ دولت سرکار بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپ کر نہیں بلکہ نجی بنکوں سے لے رہی ہے۔جبکہ حقیقت اندرونی قرض کی

فیصد سود دے رہی ہے۔ یہی ١۵یہ ہے کہ بڑے سرمایہ داروں کا منافع جو بنکوں میں جاتا ہے اس پر انہیں سرکار ٢٠٠٨بنکوں میں اسی لیے ہے کہ آئی ایم ایف سے وجہ ہے کہ یہ سرمایہ کاری کم کر رہے ہیں۔ مگر انکی دولت

معاہدے میں سرکار پر یہی زور تھا کہ وہ زر مبادلہ کے ذخائر ِمیں اضافہ کرے۔ اب سرکار ایسا کر رہی ہے تو اس کا ایک جانب فائدہ سرمایہ داروں کو ہے تو دوسری جانب شکایت آئی ایم ایف کو۔ یہ الٹی شکایت ہے۔ یوں آئی ایم ایف کا

اب اعتراض یہ ہے کہ سرکار اندرونی قرض لے کر دراصل یہ رقم سرکاری اداروں پر خرچ کر رہی ہے۔ عوام کو بجلی، تیل، گیس میں چھوٹ، یعنی سبسڈی ، دی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف دراصل یہ چاہتی ہے کہ یہ چھوٹ بین

کو اندرونی قرضوں سے روکنا چاہتی ہے اور االقوامی تیل اور بجلی کی کمپنیوں کو دی جائے۔ اسی لیے یہ سرکار دے کر دراصل پاکستانی عوام سے مہنگی بجلی اور تیل کی قیمتوں کے زریعے بین االقوامی کمپنیوں کے خود قرضے

منافعوں کو مزید بڑھانا چاہتی ہے۔ مگرپاکستانی سرکار باربار اندرونی قرض لیتی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد بجلی اور ی بے چینی کو کم کرنا ہے۔ مگر اس سے بڑھ کر پاکستانی سرکار پر دبائو اندرونی قومی سرمایہ داروں تیل پر عوام

کا ہے جو سستی بجلی، سستا تیل چاہتے ہیں تا کہ اس سے سستی بجلی پیدا کر سکیں۔ اور یہی دبائو ن لیگ اور پیپلز بسڈی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر آئی ایم ایف پارٹی کو جی ایس ٹی کی جانب لے جاتا ہے۔ یہ تیل اور بجلی پر س

کو قرض لوٹانے کے لیے درکار رقم کو جی ایس ٹی سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہاں پر ایم کیو ایم، جماعت اور اے این پی غریبوں کے درد میں نہیں اپنی طبقاتی پرتوں پر بوجھ کم رکھنے کے لیے جی ایس ٹی کے حامی ہیں ۔

ن پرجاگیرداری نہیں سرمایہ داری حاوی ہےپاکستا

ایم کیوایم کی ایک مانگ یہ ہے کہ زراعتی آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے۔ پاکستانی ترقی پسند حلقوں میں زرعی ٹیکس کی ہمیشہ حمایت کی جاتی ہے۔ یہاں یہ سوچ کارفرما ہے کہ جاگیر داری حاوی ہے ، پارلیمان میں جاگیر دار ہیں، جب

ہوں گے تو سرمایہ داری کو جگہ ملے گی، ترقی آئے گی۔ سرمایہ داری پھلے پھولے گی تو خوشحالی آئے یہ پیچھےگی، عوام آزاد ہو گی۔ یہ سب مفروضوں پر مبنی سوچ ہے۔ یہ سوچ کہ جاگیر داری حاوی ہے پارلیمان میں جاگیرداری

جاگیرداری پر نہیں سرمایہ داری پر چل رہی پر ٹیکس مخالفین کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستانی ریاستہے۔ سرمایہ داری کے لیے ضروری نہیں کہ اسکے اولین نمائندے سرمایہ دارہوں۔ اوباما، من موہن سنگھ،یوسف رضا گیالنی، زرداری سرمایہ دارنہیں۔ مگر سرمایہ داری نظام میںیہ کسی عہدے پر ہوں انکے اقدامات سرمایہ داری

ے لیے ہوتے ہیں۔کو آگے بڑھانے ک

فیصد کمائی شہری سرمایہ داروں کی، ٹیکس ان پربڑھائو۵٣ مگر بال شبہ یہ زرعی آمدنی پر ٹیکس کے مخالفین کے لیڈر بھی ہیں۔گیالنی اور زرداری بڑے جاگیر دار بھی ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں دولت اور اس سے بڑھ کر سرمائے کو بڑھانے کے لیے سب سے اولین طریقہ کون سا ارب ڈالر تھی۔ اس میں زراعت سے ١٨۵ میں پاکستان کی کل قومی پیداوار ٢٠٠٩ہے۔ یہ طریقہ سرمایہ داری ہے۔

اعت پر ٹیکس بڑھانے کی مانگ کرنے والے فیصد پیدا ہوا۔ یوں زر٧۶صنعت اور سروسز سے فیصد اور١٩صرف

Create PDF files without this message by purchasing novaPDF printer (http://www.novapdf.com)

Page 4: Reformed GST and Class Struggle

فیصد ٹیکس لیا جاتا ۶٣ سے صنعتدراصل صنعت کاروں یا سروسز کے سرمایہ داروں پر ٹیکس کم رکھنا چاہتے ہیں۔ فیصد کماتی ہیں ٹیکس میں ۵٣جبکہ سروسز جو دولت کا ۔ فیصد ہے٢۵جبکہ اسکا قومی پیداوار میں حصہ ہے

یہ سروسز یوں دیکھا جائے تو مطالبہ یہ ہونا چاہئے کہ سروسز پرٹیکس لگایا جائے۔ فیصد ادا کرتی ہیں۔٢۶صرف پر ٹیکس بڑھانے سے گریزاں تمام شہری پارٹیاں بھی ہیں، اور جاگیرداروں سے ٹیکس زیادہ لینا چاہتی ہے۔ سروسز

پیمانے پر عالمی سرمایہ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ سروسز میں بڑے ایم کیو ایم اور جماعت اسالمی۔ن لیگ،جیسےداری کا سرمایہ آتا ہے اور مقامی سرمایہ داروں کے لیے عالمی سرمایہ داری ضروری بھی ہے ۔ یہ عالمی سرمایہ

داری کی پیش رفت سے پیدا ہونے واال بوجھ اپنے سے نچلی پرت پر ڈالنا چاہتے ہیں۔

! ارب بھی نہیں۵٠ارب، تعلیم پر ٣٧۵دفاع پراجات بڑھ گئےہیں۔ خود آئی ایم ایف کہتا ہے کہ اسکی ایک وجہ دہشت کے خالف جنگ میں سرکار کے اخر

١٨ دیکھنے میں تو گزشتہ دس سال میں دفاع پر خرچ ۔}٣دیکھئے ٹیبل {پاکستان کی بڑھتی ہوئی شمولیت بھی ہے ارب روپے خرچ ١٣٠فیصد کے آس پاس ہی ہے۔ مگر یہ اس حقیقت کو چھپا دیتا ہے کہ دس سال پہلے دفاع پر

۔}۴{ ارب روپے خرچ ہوتے ہیں٣٧۵ میں یہ ٢٠١٠ہوتے تھے اور ارب روپے ہو ۶٣٠ارب روپے تھی اور اب یہ بڑھ کر ٢٣۴ میں ٢٠٠١اسی طرح قرضوں پر سود کی ادائگی

فیصد کے آس پاس رہی ہے۔ قومی آمدنی اسی عرصے میں ٣۴کل قومی اخراجات میں قرضوں پر ادائیگی گئی ہے۔ میں قرضوں کی مد میں ایک ہزار ارب روپے سے زائد ٢٠١٠ ارب ڈالر ہو گئی۔یوں ١٨۵ارب ڈالر سے بڑھ کر ١٠٠

ہو گئی۔

فوج اور قرضوں کی ادائیگی کو ناگزیر بنانے والےفوج اور قرضوں پر ادائی کی رقم کو ناگزیر بنا کر پیش کرنے والے ہی دراصل عوام پر خرچ کو کم سے کم رکھنا

یونیورسٹی تعلیم پر یں۔ فوج پر تین سو ارب اور قرض پر ایک ہزار ارب روپے خرچ کرنے والے ہی دراصل چاہتے ہ ۔ }۵{ ارب روپے کو فضول سرکاری اخراجات قرار دیتے ہیں۵٠ ارب روپے کو اضافی اور ِمیٹرک تک تعلیم پر ١۶

کیو ایم ، ن لیگ اور جماعت اسالمی ایم یوں فوجی اخراجات کی طرح قرضوں پر ادائی بھی ہوشرباء رقم ہے۔ دفاعی اخرجات میں کمی کا ذکر بھی نہیں کرتے کیونکہ سرمایہ داروں کی مختلف پرتیں انہیں اپنے منافعوں کو جاری رکھنے کے لیے ضروری سمجھتی ہیں۔ ن لیگ قرضوں کو معاف کروانے میں دلچسپی رکھتی ہے مگر یہ جانتی ہے

دلے میں مزید کتنی جگہ دینی پڑے گی۔ اس لیے یہ اس پر بھی زور نہیں ڈالتی۔کہ عالمی اداروں کو اسکے ب۔ جبکہ سرکار کی طرف سرکاری بجٹ کا ایک بڑا حصہ اب بجلی اور تیل کی کمپنیوں کو سبسڈی دینے میں جا رہا ہے

سال میں قومی سے سب سے بڑی سبسڈی تیل گیس بجلی پر نہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ کے مطابق رواں ٢ء۶ فیصد اور فوجی اخراجات پر ۴ء۴ فیصد انرجی پرخرچ ہو گا۔ جبکہ قرضوں کی ادائیگی پر ١ء۶آمدنی کا صرف

۔}۶{فیصد خرچ ہوتا ہے

انرجی پر سبسڈی کتنی ملتی ہے جو ختم کرنی ہے؟ فیصد ١ء۶ی آمدنی کا ارب ڈالر تھی۔ اس حساب سےانرجی پر خرچ ہونے واال قوم١٨۵ میں قومی آمدنی ٢٠٠٩سال ارب روپے بنتا ہے۔ فوج پر اس کا دگنا اور قرضوں پر سود کی ادائیگی پر اس کا تین گنا خرچ ہو رہاہے۔ وفاقی ٢٢٨

روپوں کی سبسڈی ٢٢٨وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ انرجی پر سبسڈی سب سے بڑا بوجھ ہے اور ان فیصد بڑھا کر صرف ایک سال میں بجلی ٢اب بجلی کے نرخ ماہانہ ۔}٧{ے گا ارب روپے کر دیا جائ١٢۶کو گھٹا کر فیصد بڑھا دئیے جائیں گے۔ یوں سو ارب روپے بچیں گے۔ پھر جی ایس ٹی مد میں قریب دو سو ارب ٣۵کے نرخ

روپے مزید کمائے جائیں گے۔ اسی طرح منصوبے کامیاب رہے تو سرکاری اداروں کے اخراجات گھٹا کر تین سو ارببچائے جائیں گے۔ یوں جو پانچ سے چھ سو ارب روپے سرکاری اخراجات میں کم ہوں گے انہیں پھر کہاں لگایا جائےگا۔ قرضے تو دو سے تین ارب روپے کےہوں گے۔ اس طرح جو اضافی رقم ہو گی اس میں سے دو سے تین

ا اولین مقصد ہے۔ ں گے۔اور یہی آئی ایم ایف کیارب روپے بجلی کی کمپنیوں کو دئیے جائ

بجلی کی کمپنیوں کے منافع بڑھانے کے قرضسبسڈی کہنے کو تو عوام کو ملتی ہے مگر یہ کئی سو ارب روپے دراصل نجی تیل و بجلی کی کمپنیوں کو ادائیگی کی

ہی کی صورت میں جاتے ہیں۔ یہ اداِئگی بھی جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کے زریعے کی جاتی ہے۔ اب آئی ایم ایف

Create PDF files without this message by purchasing novaPDF printer (http://www.novapdf.com)

Page 5: Reformed GST and Class Struggle

کوششوں سے تو رینٹل پاور پالنٹ اور نجی تیل و بجلی کی کمپنیوں کے نرخ بڑھانے پر کھلی چھوٹ کو ترقی قرار دیا جاتا ہے۔ انکے ریٹ بڑھتے ہیں تو اسے سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول قرار دیا جاتا ہے۔ یوں ایک جانب آئی

ے نرخوں کی آزادی کا مطالبہ کرتی ہے تو دوسری جانب اگر سرکار پر ایم ایف نجی تیل و بجلی کی کمپنیوں کو من ماندبائو ہے کہ وہ بجلی تیل کے نرخ مزید نہ بڑھنے دے تو اسکا حل آئی ایم ایف کے پاس یہی ہے کہ جی ایس ٹی بڑھا

اخراجات کا میں سبسڈی پر خرچ کل ٢٠٠١کر وہ رقم حاصل کرو جو تیل بجلی کی کمپنیوں کو سرکار نے اداکرنی ہے۔ فیصد ہوگیا۔١٨میں یہ بڑھ کر ٢٠١٠ فیصد تھا۔ ٣ء۵

عالمی مالیاتی اداروں کے حمایتی طبقاتآئی ایم ایف چاہتی ہے کہ بجلی اور تیل کی قیمتوں پر سرکاری چھوٹ جو عوام کو سستے بجلی اور تیل کی صورت

یہی وجہ ہے کی صورت ِمیں چھین لی جائے۔ میں جاتی ہے وہ یا تو نہ جائے اور اگر جائے تو عوام سے جی ایس ٹیکہ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی بجلی کے نرخ کم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے، ان کے عالمی آقائوں کے آگے پھر کون سرخ ُرو ہو گا۔ یوں یہ پارٹیاں عالمی سرمایہ داروں اور مقامی سروسز انڈسٹری کے مفاد کی اولین ترجمان

۔انکے مخالف ن لیگ اور جماعت اسالمی اور تحریک انصاف مقامی چھوٹے کاروباریوں، سرمایہ داروں اور ہیںپروفیشنل پرت کے مفادات کی ترجمان ہیں۔ یہ تمام غریب کا نام لیتے ہیں، مزدور پر بوجھ کی بات کرتے ہیں مگر جی

ہیں اور ان کا مقصد اپنی طبقاتی پرت پر کم ایس ٹی کے خالف انکے پیش کردہ حل جی ایس ٹی کی حمایت میں ہوتے ازکم بوجھ ڈالنا ہوتا ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی سرمایہ داری کی پیش رفت نے جو گرفت ترقی یافتہ ممالک پر حاصل کی ہے آر ن لیگ، جی ایس ٹی اس کا ایک اظہار ہے۔ عالمی سرمایہ داری کو قومی سرمایہ داروں کے مختلف حصے ایم کیو ایم،

پیپلز پارٹی، جماعت اسالمی ، تحریک انصاف کی صورت میں ناگزیر سمجھتے ہیں۔یہ نظام نیو لبرل ازم کا کہالتا ہے۔ اسی نظام میں عالمی سرمایہ داری کی پیش رفت کی قیت کسی بھی ملک کی پوری معیشت کو ادا کرنی ہوتی ہے۔ قومی

گر یہ عالمی سرمائے کے رستے میں رکاوٹ نہیں بلکے اسکے سرمایہ دار اس پیش رفت سے متاثر ہوتے ہیں۔ ممعاون بننا چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ عالمی سرمایہ داری کی پیش رفت انکو نقصان پہنچانے کے بجائے مزدور طبقہ اور غریب عوام سے اپنی قیمت وصول کر لے۔ اسی لیے یہ مزید قرضوں کے حامی ہیں،فوجی اخراجات کے

جاگیر داروں پر ٹیکس کا رونا روتے ہیں مگر سٹہ باز سرمایہ داروں پر ٹیکس کم ازم کم رکھنے کے حامی حامی ہیں،ہیں۔ یوں مروجہ سیاسی پارٹیاں دراصل اپنے طبقاتی مفادات کی ترجمان ہیں۔ آر جی ایس ٹی پر انکی سیاست نے

انکے طبقاتی مفادات اور طبقاتی گٹھ جوڑ کو ننگا کر دیا ہے۔

ایہ داروں کا مفاد اور مزدور طبقہ کا مفادسرمسرمایہ داروں کی پارٹیوں کا مفاد مزدور طبقہ کا مفاد نہیں۔ ٹیکسوں میں اضافے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ٹیکسوں میں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ قرضوں سے انکار کی ضرورت ہے۔ فوجی اخراجات جاری رکھنے کے بجائے ان

دنیا بھر میں سرمایہ دار اپنے بحران کی قیمت مزدور طبقہ سے ادا کروانا چاہتے ہیں۔ اس میں کمی کی ضرورت ہے۔ کا جواب یہی ہے کہ سرمایہ دار اپنے بحران کی قیمت خود ادا کریں۔ یعنی ٹیکس سرمایہ داروں پر لگایا جائے، انہوں

ہ، آئرلینڈ، یونان سمیت کئی ایک ممالک میں نے کاروبار میں گھاٹا اٹھایا ہے تو اسکے ذمہ دار یہ خود ہیں۔ آج برطابییہ مزدوراور طلبہ ہی ہیں جو سرمایہ داروں کی عوام پر یلغار کے خالف ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہمیں انکے نقش قدم پر چلنا ہو گا۔ احتجاج اور ہڑتال ہی سرمایہ داروں کو مجبور کرے گی کہ وہ پیچھے ہٹیں اور اپنا بوجھ ہم پر نہ ڈالیں۔ نہ ہی

اسکے لیے کے آگے سرجھکانے سے مہنگائی کا بوجھ نہیں ہٹے گا۔ سرمایہ داری اور سامراج ارلیمان اور نہ ہی پ طبقاتی گٹھ جوڑ کے بجائے طبقاتی لڑائی کی ضرورت ہے۔

حوالے

1. IMF Executive Board Approves US$7.6 Billion Stand-By Arrangement for Pakistan Press Release No. 08/303 November 24, 2008 http://www.imf.org/external/np/sec/pr/2008/pr08303.htm ۔١ 2. 2010 International Monetary Fund June 2010 , IMF Country Report No. 10/183, Pakistan: Poverty Reduction Strategy Paper http://www.imf.org/external/pubs/ft/scr/2010/cr10183.pdf 3. Pakistan Economic Outlook – July 2010 , Planning Commission, Government of Pakistan http://www.planningcommission.gov.pk/Economic%20Outlook/Macro_Outlook_July%202010.pdf

Create PDF files without this message by purchasing novaPDF printer (http://www.novapdf.com)

Page 6: Reformed GST and Class Struggle

4. Pakistan Fiscal Operations, Ministry of Finance, Government of Pakistan, July to June 2009-10 http://www.finance.gov.pk/fiscal/jul_june_2009_10.pdf and 2001-02 http://www.finance.gov.pk/fiscal/maintable_junr.pdf 5. Pakistan Economic Survey 2009-10, Ministry of Finance, Government of

Pakistan,http://www.finance.gov.pk/survey_0910.html Asian Development Outlook 2010 Update: The Future of Growth in Asia, Economic Trends and Prospects in ۔.6Developing Asia http://www.adb.org/documents/books/ado/2010/update/ado2010-update-pak.pdf 7. The High Commission of Pakistan in United Kingdom, Salient points of Dr. Hafeez Shaikh's budget speech,

http://www.onepakistan.com/finance/budget/

رقم اور شرحگزشتہ دس سال میں ٹیکس، قرضوں کی : ١ٹیبل 2001-2 2004-5 2008-9 2009-10 Tax Rev (% gdp) 441 (12.7) 659 (10) 1204 (9.2) 1472 (10) Sales Tax 153 (4.4) 235 (3.6) 452 (3.5) 516 (3.5) Direct Tax 124 (3.6) 176 (2.7) 440 (3.4) 528 (3.6) External Borrowing 122 120 149 188 Internal Borrowing 56 96 530 940

Source: Ministry of Finance, Government of Pakistan, Summary of Consolidated Federal and Provincial Budgetary Opeations 2001-02 to 2009-10 http://www.finance.gov.pk/fiscal_main.html

کل رواں اخراجات کی تفصیل: ٢ٹیبل

}رقم ارب روپوں میں{دہشت کے خالف جنگ میں پاکستان : ٣ٹیبل

} تخمینہ{ بڑھاوا دیینے کے لیے سرکاری رقممعیشت کو: ۴ٹیبل

}کل، کل قومی آمدنی کا فیصد{عمومی سرکاری قرض : ۵ٹیبل

Create PDF files without this message by purchasing novaPDF printer (http://www.novapdf.com)

Page 7: Reformed GST and Class Struggle

ائعدولت کی پیداوار اور ٹیکس کے زر: ۶ٹیبل

Create PDF files without this message by purchasing novaPDF printer (http://www.novapdf.com)